مخلوط تعلیم پر مضمون -1400سے زائد الفاظ
تعلیم انسانیت کا زیور ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔ اسلام میں بھی حصولِ تعلیم پر زور دیا ہے ۔ حضور نبی کریمؐ نے عالم کی سیاہی کو شہید کے خون سے بہتر کہا ہے ۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ :
” انسان جو وقت حصولِ تعلیم میں صرف کرتا ہے وہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔”
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ :
” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و وعورت پر فرض ہے ۔ “
مختصر یہ کہ مہذب معاشرے کی تخلیق کے لیے تعلیم کا حصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس سے کسی کو انکار کی جرأت ممکن نہیں ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مخلوط تعلیم سے کیا مراد ہے ؟ لفظ ” مخلوط ” کے معنی ہیں خلط ملط ہونا ۔ یا باہم پیوستہ ہونا ۔ چنانچہ مخلوط تعلیم کی ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا درسگاہوں میں اکٹھے تعلیم حاصل کرنا۔ مخلوط تعلیم کا تصور مغربی تہذیب کی پیداوار ہے ۔ جہاں عورت اور مرد کا آزادانہ میل جول روا سمجھا جاتا ہے ۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر عورت اور مرد اکٹھے کام کرتے یا دیگر مشغولات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ غیر مردوں اور عورتوں کا لمبے لمبے سفر ایک ساتھ جانا ، ہوٹلوں اور ناچ گھروں میں ان کا اکٹھے ناچنا اور دیگر خرمستیوں میں اکٹھے حصہ لینا روز مرہ کا معمول ہے ۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت اور مرد شادی بیاہ کے بندھن میں بندھے نہ ہونے کے باوجود اکٹھے زندگی گزار رہے ہوں ، درسگاہوں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا اکٹھے تعلیم حاصل کرنا عین فطری بات سمجھی جاتی ہے ۔ حالانکہ سراسر اصولِ فطرت کے خلاف ہے ۔ مرد اور عورت اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتے ہیں ۔ اسی اعتبار سے قدرت نے ان کے فرائض الگ الگ اور مختلف متعین کیے ہیں ۔ چنانچہ ہمارا مذہب اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے ، فطرت کے اس اصول کی پاسداری کا واضح حکم دیتا ہے ۔ لہٰذا مذہبی نقطہ نظر سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مخلوط تعلیم کا تصور ہمارے معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی قدروں کے منافی ہے ۔ اکبر زار آبادی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ :
نئی تعلیم میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں کہ گویا آبِ زمزم ، مے میں داخل ہے
مخلوط تعلیم کے حامی بڑی شدومد کے ساتھ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورتیں ہر کام مل جل کر کریں ۔ ان کے خیال میں عورتیں ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد سر انجام دے سکتا ہے ۔ یہ دلیل نہایت بری اور غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ چونکہ عورتوں اور مردوں کی جسمانی ساخت مختلف ہے اسی اعتبار سے ان کے فرائض بھی الگ الگ ہیں ۔ چنانچہ انہیں الگ الگ دائروں میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو سر انجام دینا چاہیے۔خواتین لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں تدریسی فرائض سر انجام دے سکتی ہیں وہ عورتوں کے علاج معالجے کے سلسلے میں ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کر سکتی ہیں۔ خواتین کے لئے سلائی کڑھائی کے ادارے قائم کر سکتی ہیں غرض وہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے مختلف پیشے اختیار کر سکتی ہیں اور اس میں کوئی قیامت بھی نہیں ہے ۔
مخلوط تعلیم کے حق میں عام طور پر ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیمی اداروں میں ایک ساتھ پڑھیں گے تو قدرتی طور پر ان میں جو جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے اس میں کمی آجائے گی ۔ لیکن یہ دلیل بھی پہلی دلیل کی طرح ہی مضحکہ خیز اور بے جواز ہے کیونکہ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو قریب آنے کے مواقع حاصل ہوں گے وہاں جنسی ہیجان کسی طرح بھی کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں لازمی طور پراضافہ ہو گا ۔ مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں جو اخلاقی بےراہروی اور جنسی تشدد کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں وہ اس دلیل کے کھوکھلاپن کا کھلا ثبوت ہیں ۔ بعض حضرات مخلوط تعلیم کے حق میں یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے چنانچہ یہ بات ہمارے مفاد میں نہیں جاتی کہ عورتوں اور مردوں کے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں ۔ یہ دلیل بھی حقیقت سے اتنی ہی دور ہے جتنی کہ مذکورہ بالا دلیلیں ہیں ۔ تعلیمی ادارے تو طلبہ کی تعداد کے مدِ نظر کھولے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اگر تعلیم مخلوط ہو تب بھی عورتوں مردوں کے تعلیمی ادارے الگ الگ ہوں تو بھی اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی ۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
شرم و حیا
عورت بنیادی طور پر شرم و حیا کا پتلا ہوتی ہے ۔ حیا کو بجا طور پر عورت کا زیور کہا جاتا ہے ۔ یہ عظیم صفت خواتین میں اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب وہ غیر مردوں سے میل جول نہ بڑھائیں ۔ اس صورت میں ان کا سماجی مرتبہ اور مقام کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں یقینی طور پر اضافہ ہوتا ہے ۔ مغربی معاشرہ میں جہاں عورت اور مرد کے آزادانہ اختلاط پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔ مادی ترقی کے بام عروج پر ہونے کے باوجود وہاں ایسے ایسے شرمناک واقعات روزمرہ کی زندگی کا معمول بن چکے ہیں جن کو کسی سے سن کر یا پڑھ کر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے ۔ اس اختلاط کی فراوانی کی وجہ سے مغربی عورت محض ایک دل بہلانے کا پیمانہ بن کر رہ گئی ہے ۔ اس بے لگام تہذیب نے مغربی عورت کو شرم وحیا اور عفت و عصمت سے بیگانہ کر دیا ہے ۔ ان اعلیٰ قدروں کا شعور ہی ان سے چھین لیا گیا ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ شادی بیاہ کو اب وہاں محض ایک فرسودہ اور بیکار روایت خیال کیا جاتا ہے ۔
اسلامی سلطنت کی حدود
مسلمانوں کا شاندار ماضی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عورت اور مرد بےحجابانہ میل جول کے بغیر بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ایک دور تھا کہ اسلامی سلطنت کی حدود نہایت وسیع و عریض خطہ زمین کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے تھی ۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں نئی نئی ایجادات اور اختراعات میں سب سے آگے تھے ۔ انہوں نے علم ، ادب اور سائنس کی نئی نئی جہتیں دریافت کیں ۔ مغرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ، اسلامی تہذیب و تمدن کی روشنی سے آشنا ہوا ۔ مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کا حصہ اس میں بہت زیادہ ہے ۔ اس دور میں مسلم خواتین بھی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت میں سرگرداں تھیں ۔ جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا ، لباس کی تراش و خراش میں تبدیلیاں لانا ، علم کے نور کو ہر طرف پھیلانا اور خوشی اور غم میں اپنے افرادِخانہ کا مکمل ساتھ دینا ، ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکا تھا ۔ اس کے علاوہ کئی عورتوں نے قابلِ قدر تصانیف بھی چھوڑی ہیں ۔ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں نہایت نادر اور قیمتی کتابیں موجود تھیں ۔ اس خاتون نے مکہ میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے بغداد سے مکہ تک نہر کھدوائی جس کے نشانات اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ بہر حال یہ بات اسلامی تاریخ سے بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ عورت کو شمعِ محفل نہ بنانے کے باوجود قومی اور معاشرتی ترقی کی منزل کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
وہ رتبہ عالی کوئی مذہب نہیں دے گا
کرتا ہے جو عورت کو عطا مذہب اسلام
مغربی عورت کے مقابلے میں ایک مسلم معاشرے کی عورتوں میں اپنی شرم و حیا کے جوہر کی حفاظت کو نہایت ضروری بلکہ لازمی سمجھا جاتا ہے ۔ اس بنا پر مشرقی عورت ایک جنس ارزاں نہیں بلکہ قیمتی اور قابلِ قدر متاع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگرچہ آزادی نسواں کے نام سے مشرقی معاشرے کی اخلاقی قدروں کو تہہ و بالا کرنے کی سرتوڑ اندرونی اور بیرونی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن جب تک مسلمانوں کی مذہب کے ساتھ وابستگی اور اپنی اخلاقی قدروں کے ساتھ محبت قائم رہے گی ، کوئی بھی مذموم کوشش اپنے بےہودہ عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔ موجودہ حالات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے اصرار پر ان کے الگ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں لہٰذا وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مخلوط تعلیم کا نظریہ کبھی عملی صورت اختیار نہیں کر سکے گا ۔ اور یہی ہماری قوم اور ملک کے لئے درست اور صحیح راہ ہے ۔
مانگے کی روشنی سے نہ پاؤ گے راستہ
اس تیرگی میں لے کے خود اپنے کنول چلو