ڈینگی اور اس کا تدارک
بہتر ہے مر و مہر پہ ڈالو نہ کمندیں
انساں کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
اس دنیا میں سب سے خوبصورت چیز زندگی ہے اور اگر یہ زندگی صحت مندانہ ہو تو سونے پر سہاگہ ہے مگر کیا کیا جائے زندگی کے سفر میں بےشمار رکاوٹیں اور امراض کے مسائل ہیں ۔ یہ ضرب المثل تو عام ہے کہ “ایک انار سو بیمار ” مگر اسے یوں کہا جائے کہ ایک جان اور سو امراض تو غلط نہ ہوگا کیونکہ زندگی کو موت میں تبدیل کرنے کے کئی عنوانات ہیں ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
زلزلے ہیں ، بجلیاں ہیں قحط ہیں ، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادر ایام ہیں
یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ لاتعداد امراض انسان کے در پئے آزاد ہیں ، انسان نے اپنی عقل و فہم اور شعور و ادراک سے ان کے تدارک کے ساماں کر رکھے ہیں مگر بیماری ایک ایسا دشمن جاں ہے جو کئی روپ بدل کر جلوہ گر ہوتا رہتا ہے ۔ پرانے وقتوں میں قحط ، طاعون اور اس قبیل کے متعداد امراض تھے ۔ وقت کے تغیر سے ان پر قابو پالیا گیا مگر اب کئی اور عوراض ان کی جگہ لے چکے ہیں ۔ فی زمانہ سرطان ، ہیپا ٹائیٹس اور ایڈز کا عفریت تھا مگر اب ڈینگی کی خوفناک شورش ہے ۔
زمانہ قدیم میں سائنسی ترقی سے قبل تو یہ بات عام تھی کہ فلاں دور میں فلاں علاقے میں فلاں مرض نے بےشمار لوگوں کی جان لے لی ۔ وبائی امراض کے حملے ہوتے تھے اور لوگ لقمہ اجل بن جاتے تھے ۔ ایسے کئی واقعات تاریخ کے اوراق کی زینت ہیں انہیں پڑھ کر آج بھی انسان کا دل دہل جاتا ہے ۔ دور جدید سائنس کی ترقی کا درخشاں اور تابناک عہد ہے ۔ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ آج کے دور میں جب میڈیکل سائنس انسان کے دل و جگر کی پیوندکاری کر رہی ہے اس وقت ایک وبائی مرض اپنی پوری دہشت سے حمل آور ہورہا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو سکول و کالج سے چھٹیاں کروانے پر مجبور ہوگئے ۔ حکومت نے بھی تعلیمی ادارے ہفتے عشرے کے لیے بند کردیے اور جب بچوں کو سکول و کالج بلایا تو پڑھائی سے زیادہ ڈینگی کی وبا اور اس سے بچاؤ کے بارے میں تعلیم دی گئی ۔ اشتہارات ، جلسے ، واک، کیمپ ، بروشر ، کتابچے اور اسی قبیل کے اور کئی عوامل اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ عوام اور حکومت ڈینگی کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ سکولوں کے معصوم بچوں نے بینروں پر ایسے شعر اور جملے لکھے جن کی وجہ سے معاشرے کے افراد کو بڑا حوصلہ ملا ۔ ان کے اشتہارات اور بینروں کا نفس مضمون یہ تھا ۔
ڈرنا نہیں ڈرانا ہے
ڈینگی کو بھگانا ہے
اللہ تعا لیٰ نے اس کائنات میں بڑی سے بڑی بھی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پیدا کی ہے ۔ ان سب کے فائدے اور نقصانات بھی ہیں ۔ مالک دو جہاں نے انسان کو عقل و فکر کی دولت سے نواز کر عمل کی راہیں ہموار کیں ۔ مگر یہ انسان ہی تو ہے جو اپنے لیے مشکلات کھڑی کر لیتا ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کی پہچان کے لیے ان کی آزمائش بھی لیتا ہے ۔
“اور ہم آزمائیں گے خوف اور بھوک سے اور اموال ، پھلوں اور جانوروں کے نقصان میں
ڈینگی کا مرض بھی ایک طرح سے ہماری آزمائش ہے ۔
ڈینگی کے بارے چینی انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ قدیم زمانے میں اس مرض کو آبی زہر قرار دیا گیا جو ایک اڑنے والے کیڑے سے ہوتا ہے ۔ سترھویں صدی مین اس بیماری کا ذکر عام ملتا ہے تاہم اس کے بارے میں قابل بھروسا معلومات اٹھارھویں صدی کے آخری عشروں میں ملی ہیں جب ایشیاء افریقہ اور شمالی امریکہ اس کا چلن عام تھا ۔
بیسویں صدی کے شروع میں اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ یہ بیماری مچھروں سے پھیلتی ہے اس کو ڈینگی کا نام بھی دیا گیا ۔ زرد بخار کے بعد ڈینگی پہلی بیماری قرار پائی جو کسی وائرس سے ہوتی ہے ۔ جان برٹین اور جوزف فرینکلن جیسے سائنس دانوں کی جانب سے تحقیق کے بعد اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں ۔ ڈینگی کی شدید قسم پہلی بار 1953 میں فلپائن میں دیکھنے کو ملی ۔ 1970 کی دہائی تک ڈینگی کی سبب بچوں کی شرح اموات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ۔ ڈینگی وائرس (DEN)سے پھیلتا ہے اور یہ وائرس انسانوں کے جسم کے اندر پرورش پاتا ہے ۔ اس وائرس کے چار مختلف اقسام ہیں ۔
DEN 1 I
DEN 2 II
DEN 3 III
DEN 4 IV
جب ایک مخصوص وائرس سے ڈینگی بخار ہو جاتا ہے تو اس مخصوص قسم کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا ہو جاتی ہے یوں دوبارہ یہ مخصوص ڈینگی نہیں ہوتا تاہم دوسری قسم کے وائرس سے ڈینگی ہونے کا خدشہ بدستور قائم رہتا ہے ۔ مختلف قسم کے وائرس سے ڈینگی ہونے کے صورت میں کئی قسم کی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں ۔ ڈینگی کا مرض دنیا کے گرم مرطوب علاقوں میں نسبتاً زیادہ ہے ۔ اس بیماری کا پھیلاؤ ملیریا کی طرح ہے یہ بیماری زیادہ تر افریقہ ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ ، اور انڈیا میں مغربی بنگال کے علاقے میں ہے ۔
مادہ مچھر (Aedes aegypti)کے کاٹنے سے یہ وائرس مچھر میں منتقل ہوجاتا ہے اور جب یہی مچھر کسی صحت مند آدمی کا کاٹتا ہے وائرس ادھر چلا جاتا ہے یوں یہ متعدی مرض بڑی سرعت سے بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ نر مچھر کی خوراک میں پروٹین نہیں ہوتی چونکہ مادہ مچھر نے انڈے دینے ہوتے ہیں چنانچہ اس کے جسم کو پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے گھاس پھونس کی بجائے وہ حیوانوں اور انسانوں سے اپنی لحمیاتی غذا حاصل کرتا ہے ۔ اس مچھر کے انسانوں کو کاٹنے کے مخصوص اوقات ہیں ۔ بالعموم یہ دن کے اوقات میں طلوع آفتاب کے دو تین گھنٹے بعد اور غروب آفتاب سے دو تین گھنٹے پہلے لوگوں کو اپنی خوراک کا ہدف بناتا ہے ۔
ڈینگی ایک پیچیدہ بیماری ہے اس کی کئی جہتیں ہیں اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو حفاظتی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ مرض جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔
Dehydration
جسم میں پانی کی بہت کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ اس موقع پر لیکوڈ ڈائٹ ( جوسز ، پانی ، دودھ ، یخنی ، دلیہ ، کھیر ، ملک شیک وغیرہ ) کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے ۔
Organ impairment
جسم کے اعضاء کا درست فعل سر انجام نہ دینا ، جسم میں شدید درد ، کمزوری کا احساس اور شدید و مستقل بخار ۔ اس مرحلے میں مریض کے جسم کا درجہ حرارت 39 درجے سینٹی گریڈ سے کم رکھا جائے ۔ کوئی اینٹی بائیوٹک لینے سے احتراز کیا جائے صرف Paracetamol(Panadol) پر اکتفا کیا جائے ۔ Aspirinاور Brufen کے استعمال سے بلیڈنگ ہوسکتی ہے جو موت پر بھی منتج ہو سکتی ہے ۔
ابتدائی مرحلے Febrile Phase میں مریض کو سخت بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے اور بخار دو سے دس دن تک رہ سکتا ہے ۔ مریض کو بخار کے ساتھ جسم میں اینٹھن ، شدید درد ہوتا ہے ۔ مرض کی شدت میں مریض تواتر کے ساتھ قے آتی ہے ۔ مردوں میں ناک سے خون آتا ہے اور بلغم میں خون کی آمیزش ہوتی ہے ۔ عورتوں میں بذریعہ پیشاب خون آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد Hemorrhagic bleeding مرحلوں میں پٹھوں کی بافتوں کے ممبرین میں خون آتا ہے ۔ مریض کے خون کے سفید خلیوں میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے اور جگر میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے ۔
جونہی ڈینگی وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو مختلف اعضاء مثلاً جگر (Liver) اور تلی (Spleen) میں جاکر عمل تولید سے تعداد میں بڑھتا ہے ، شدید انفیکشن میں انسان کے جسم کے اندر وائرس بہت زیادہ تعداد میں بنتے ہیں اور جسم کے دوسرے اعضاء مثلاً لمف ، ٹشوز ، ہڈی کے گودے وغیرہ پر بڑا منفی اثر ڈالتے ہیں ۔ یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہوکر بلڈ ویسلز کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بلڈ ویسلز سے fluid رس لے کر باڈی کیویٹی میں آجاتا ہے ۔ نتیجتاً بلڈ ویسلز میں گردش کرنے والا خون کم ہوجاتا ہے جس سے فشار الدم میں تخفیف ہوجاتی ہے جو سارے جسم میں خون کی گردش میں کمی واقع کرتی ہے ۔ مختلف جسمانی اعضاء کو آکسیجن نہیں مل پاتی اس لیے جلد پر سرخ دھبے بنتے ہیں ۔ پیچیدگی کی صورت میں ناک ، مسوڑھوں وغیرہ سے خون بھی آسکتا ہے اس کیفیت کے دو نام ہیں ۔
Dengue Hemorrhagic Fever (DHF)
Dengue Shock Syndrome (DSS)
ڈینگی کے سبب ہڈیوں کا گودا (Bone Marrow) بہت متاثر ہوتا ہے تو پلیٹ لیٹس (Platelets) نہیں بن پاتے اور ان کی تعداد کم ہوجاتی ہے ۔ ڈینگی کا مرض شروع ہونے سے چار پانچ دن بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس مرحلے میں مریض کے جسم کا درجہ حرارت 37 درجے سینٹی گریڈ سے کم ہوجاتا ہے ۔ مریض کے خون میں پلازمہ کی مقدار کم ہوجاتی ہے ۔ اگر اس موقع پر پلازمہ کی مقدار کو زیادہ سے زیادہ لیکوڈ ڈائٹ (پانی ، دودھ، ملک شیک ، فریش جوسز ، نیم شیریں لسی ، کم چینی والے شربت ، یخنی ، دلیہ ، کھیرہ وغیرہ ) سے کنٹرول نہ کیا جائے تو مریض کی موت کا خدشہ ہوتا ہے ۔ ڈینگی کی ابتدائی علامات درج ذیل ہیں :
سر میں شدید درد، نزلہ اور سردی کا محسوس ہونا ۔
آنکھوں کے پیچھے اور دیگر عضلات (Muscles) میں ناقابل برداشت درد۔
جلد پر سرخ دھبوں کا ظہور ۔
متلی (Nausea) کا ہونا اور قے (Vomiting) کا آنا ۔
تیز بخار ، پورے جسم میں درد کی ٹیسیں بالخصوص کمر اور جوڑوں(Joints) میں شدید درد ۔
شدید بیماری میں ناک یا مسوڑھوں سے خون آنا ۔
ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے درج ذیل تدابیر بہت کار گر ثابت ہوتی ہیں :
اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں ۔ (ماحول میں صرف آپ کا گھر ہی شامل نہیں ہوتا )
جسم کو حتی المقدور ڈھانپ کے رکھیں ۔
مچھر مار سپرے ، کوائل ، میٹ ، مچھر بھگاؤ لوشن اور مچھر دانی کا التزام کریں ۔
دروازوں اور کھڑکیوں پر حفاظتی جالیاں لگوائیں ۔
ڈرم اور ٹینکی سے پانی کا غیر ضروری اخراج نہ ہو ۔
پانی کے سارے برتن ڈھکے ہوئے ہوں ۔
پودوں اور باڑھ پر تواتر سے سپرے کریں ۔
گھر کے فرش ، گلدانوں اور باغیچے میں رکھے گئے گملوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں ۔
اگر مریض مرض کی ابتدا سے حفاظتی تدابیر اختیار کرے اور اس کے جسم میں کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو تو ڈیڑھ دو ہفتے بعد اس کی صحت بحال ہونے لگتی ہے ، بھوک لوٹ آتی ہے بول چال اور رویوں میں مثبت تبدیلی آجاتی ہے ، دل کی دھڑکن متوازن اور فشارالدم (بلڈ پریشر) اعتدال پر آجاتا ہے ۔
بےشک ابھی ڈینگی تک کی کوئی ویکسین نہیں تیار کی جاسکی ۔ اگر امراض انسان کی تلاش میں ہیں تو اللہ نے شفایابی کو بھی کوئی ذمہ داری دی ہے ۔ اسی پاک ذات کا فرمان ہے ۔
(اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے )
کالق کائنات نے انسان کو بہت سے قوائے ذہنی و فکری عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر بہت سے مصائب و آلام پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ دین فطرت دین اسلام ایک ایسا آئین حیات ہے جو جملہ شعبہ ہائے حیات پر حاوی ہے ۔ مسئلہ کوئی بھی ہو سیاسی ، سماجی ، اخلاقی ، معاشرتی یا نفسیاتی ۔ اسلام میں ہر رخ زندگی کے لیے رہنما اصول موجود ہیں ۔ اسلام نے نظافت کو ایمان کا حصہ قرار دے کر ڈینگی تو کیا اور کئی طرح بیماریوں کا سد باب کر دیا ہے ۔
حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم اس خوفناک بیماری سے محفوظ و مامون رہ سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے ماحول صاف ستھرا رکھنا ہوگا یاد رہے کہ ہمارا ماحول صرف ہمارا گھر ہی نہیں ہوتا گردوپیش کی ہر طرح کی زندگی اور ہوا ، فضا ہمارا ماحول ہے ۔ صاف ستھرا ماحول صحت مند معاشرے کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
غذا سے علاج کرنا بہت مفید عمل ہے ۔ ڈینگی بخار میں ایسے پھل اور غذائیں استعمال کی جائیں جن میں وٹامن ڈی اور سی اور کیلشیم حاصل ہوتا ہو۔ مثلاً انار کا جوس ، سیب کا جوس ۔ ترشاوا پھل اس ضمن میں بہت مفید ہیں ۔ پروپولس (رائل جیلی) جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے ایک طاقتور اینٹی انفیکشن، اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل ہے ۔ پپیتے کے پتے میں اس مرض کا شافی علاج ہے ۔ پپیتے کے دو تازہ پتوں کا رس صبح و شام پینے سے Platelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بہتر ہوجاتے ہیں ۔ طب و حکمت میں کالی مرچ ، کلونجی ، چرائتہ ، افسنتین ہر ایک دس گرام باریک پیس لیں اور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح دوپہر شام استعمال کرنے سے افاقہ ہوجاتا ہے ۔
ذکر الہٰی میں بڑی طاقت ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا ۔ قرآن کی تلاوت اور معوذ تین کے ورد سے بہت سے آفات سے بچا جاسکتا ہے ۔ سورہ الانعام کی آیت نمبر 16 اور 17 لکھ کر گھر میں آویزاں کردی جائے تو کوئی موذی مرض گھر میں داخل نہیں ہوسکتا اور استغفراللہ کا ورد بھی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی بھی بیماری دور کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ ارشاد ربانی ہے ۔
(اگر تجھے اللہ کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے کوئی نہیں دور کرسکتا سوائے اللہ کے ، اور اگر تجھے کوئی خیر پہنچے تو بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے )
ڈینگی وائرس ایک “ٹراپیکل” مرض ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں کیسے پہنچا اور کیسے پھیلا؟ اس معاملے میں بہت غوروخوض کیا گیا اور تلاش و جستجو کے سارے طریقے آزمائے گئے ۔ غیر جانبدار مبصریں اور محققین نے اپنی اپنی آراء دیں عالمی ادارہء صحت (W.H.O) کا کہنا ہے کہ ایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ، کئی علاقوں میں شدید بارشیں ، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے ۔ تحقیق کرنے والے ایک گروہ کا خیال ہے کہ مریض امریکی بندرگاہ سے پرانے برآمد شدہ ٹائروں کے توسل سے کراچی بندرگاہ تک آیا اور پھر بتدریج غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے بڑے شہروں تک پہنچا ۔ لاہور کا وہ علاقہ جو ریلوے اسٹیشن اور ڈرائی پورٹ کے قریب ہے اس کی آماجگاہ بنا ۔ سری لنکن ماہرین کے ٹیم نے اس علاقے سے ڈینگی کے انڈے ، لاروا اور پیوپا کثیر تعداد میں تلاش کیا ۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ مغربی ممالک نے حیاتیاتی ہتھیار(Biological Weapon) کے طور پر ڈینگی کا میزائل پاکستان میں داغا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
اسلام دشمن اور پاکستان مخالف قوتیں ہمیشہ سے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرتی رہی ہیں جس سے وہ نقصان پہنچا سکیں ۔ یہ تو من حیث القوم ہمارا اپنا فرض ہے کہ اپنا دفاع احسن طریقے سے کریں ۔ القصہ ڈینگی کوئی نیا مرض نہیں یہ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسانی تاریخ مگر برصغیر پاک و ہند اب یہ بڑی شدو مد سے آیا ہے یا بھیجا گیا ہے ۔ اس مرض کے عام ہونے کی وجہ کوئی بھی ہو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا بلکہ بہ صمیم قلب اس کا مقابلہ کرنا ہے ۔
مارنا ہے دشمن کو اس کے ہاتھوں مرنا نہیں
ڈینگی سے لڑنا ہے ڈینگی سے ڈرنا نہیں