میرا دل پسند شاعر – مرزا غالبؔ پر مضمون – 2100 سے زائد الفاظ
اُردو شاعری کے تاریخ میں کئی شاعر گزرے ہیں – ان کی حیثیت گلشن اُردو کے رنگا پھولوں کی طرح ہے ۔ ان پھولوں میں ایک پھول ایسا بھی ہے جو اپنی رنگت ، نکھار اور مخصوص خوشبو کے باعث سب سے منفرد ہے ۔ اس پھول کا نام مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ہے جسے ناقدین علی کل غالب کہتے ہیں ۔
مرزا غالبؔ کی شاعری اُردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کی شاعری میں آفاقیت پائی جاتی ہے ۔ اس کے کلام کو دنیا کے بڑے بڑے شاعر کے کلام کے مقابلے میں رکھ کر دیکھ لیں اُردو زبان کا سر افتخار سے بلند ہو جائے گا کیونکہ اس نے زندگی کی صداقتوں کو دیکھتے ہوئے زندگی گزارنے پر زور دیا اور یہ وہ بنیادی خوبی ہے جس کی وجہ سے اس اردو شاعر کو عظیم الشان انسان دوست شاعر گردانا جاتا ہے ۔
مرزا غالبؔ کے اب وجد سمر قند کے باسی تھے ۔ مرزا قوقان بیگ ، غالبؔ کے دادا پہلے بزرگ تھے جنہوں نے سمر قند کو خیر باد کہا اور ہندوستان میں سکونت اختیار کی ۔ مرزا کے والد مرزا دولہا کے نام سے معروف تھے ۔ اُن کا اصل نام مرزا عبد اللہ بیگ تھا اور اُن کی اولاد میں تین بچے تھے ۔ مرزا غالبؔ ، مرزا یوسف اور چھوٹی خانم ۔ مرزا غالبؔ کا پورا نام اسسد اللہ بیگ خان اور عرف مرزا نوشہ تھا ۔ 27دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے جو اسلامی تقویم میں شب ہشتم ماہ رجب 1212ء ہجری ہے ۔
“چنانچہ میں آٹھویں رجب 1212ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا” (مکتوباتِ غالبؔ )
مرزا غالبؔ کی عمر پانچ برس تھی کہ اُن کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ خاں نے پرورش کی ذمہ داری قبول کی ۔ نصر اللہ بیگ خان مرہٹوں کی طرف سے آگرہ کے صوبے دار تھے ۔ آگرہ میں انگریزی کی عمل داری کے بعد نصر اللہ بیگ کو چار سو سواروں کا سالار مقرر کیا گیا ۔ غالبؔ کے چچا اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ بھی ایک معرکہ میں ہاتھی سے گرے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ اب مرزا کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے نانا خواجہ غلام حسین نے نبھانا شروع کی ۔
مرزا غالبؔ کی شادی نواب الٰہی بخش معروف کی صاحبزادی سے ہوئی ۔ ان کی اپنی کوئی بقیدِ حیات اولادانہ تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سات بچوں سے نوازا تھا مگر قضائے الٰہی سے کوئی بھی زندہ نہ رہا ۔ کسی بھی بچے کی عمر پندرہ ماہ سے زیادہ نہ ہوئی ۔ اُنہوں نے اپنی بیوی کے بھانجے زین العبدین عارفؔ کو متنبی کر لیا تھا جو بڑے ہونہار شوعر اور اعلیٰ درجے کے خوش نویس تھے ۔
مرزا غالب ؔنے تقریباً بہتر برس عمر پائی اور نظام الدین اولیاء کی خانقاہ کے قریب دفن ہوئے ۔ اب وہاں سنگ مرمر کے استعمال سے خوبصورت مقبرہ بنایا جا چکا ہے ۔
“آہ غالب مرد” تاریخِ وفات
مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری کا کماحقہ جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شاعری کے جملہ ادوار کا ذکر کیا جائے ۔ غالب کی شاعری کے پانچ ادوار ہیں ۔
پہلا دور “ریختہ” (1797ء سے 1821ء)
اس دور میں غالبؔ پر بیدلؔ کا بہت گہرا اثر ہے ۔ یہ اثر صرف لفظی طور پر ہی نہیں بلکہ معنوی اور اظہاری طور پر بھی ہے تقلیدِ بیدلؔ میں غالب نے مشکل پسندی اور گنجلک الفاظ کے استعمال پر زور دیا ہے ۔ مرزا کی ان دنوں کی شاعری میں آمد پہلو کم اور آورد کا عنصر زیادہ ہے ۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ بعید از فہم تشبیہات اور عجیب و غریب خیالات پیش کیے جائیں ۔
مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی فنکارانہ عظمت کا لوہا عام و خاص نے مانا ہے اور ان کی شاعرانہ اخلاقی دل و جان سے تسلیم کی ہے ۔ وہ اردو کے تنہا شاعر ہیں کہ جن کا کلام دل آویزی اور دل نشینی کے لحاظ سے معتبر ہے کلام غالبؔ کی فکر انگریزی دلوں کو لبھاتی اور روح کو کیف و سر خوشی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ غالبؔ حسیات کے شاعر ہیں اور تفکر و تدبر کا درس دیتے ہیں ۔ غالبؔ انسان بھی ہیں اور انسان دوست بھی اس پر مستزاد یہ کہ وہ حیاتِ انسانی کی نباض بھی ہیں ۔ وہ بظاہر معمولی سی بات کہتے ہیں مگر اس میں حیات انسانی کی بہت بڑی حقیقت مخفی ہوتی ہے ۔
غالبؔ کے کلام میں ہمیں جابجا ایسے شعر ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہم مسکرا دیتے ہیں اگر وہ کسی شخص پر چوٹ کرتے ہیں تو وہ چوٹ بھی اتنی لطیف ہوتے ہے کہ مرزا صاحب کے ساتھ وہ شخص بھی مسکرانے لگتا ہے ۔ ان کی شوخی و بذلہ سنجی صرف ہنسنے ہنسانی کے لیے ہے کسی کی اہانت یا تحقیر ان کا مقصود نہیں ۔ اس خوبی کی وجہ سے ان کے کلام میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کو پڑھ کر ہم اپنے دکھ فراموش کر دیتے ہیں ۔ غالبؔ کی ظرافت کی زد سے کوئی نہیں بچ پاتا ۔ وہ محبوب ، رقیب ، واعظ اور ناصح کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کو بھی نشانہ بنا دیتے ہیں ۔
زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی ؟
بندگی میں بھی ہمارا بھلا نہ ہوا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
بس اتنا جانتے ہیں ، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے
واعظ نہ خود پیو نہ کسی کو پلا سکو!
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنا چھیڑیں گے رکھ کے عذرِ مستی ایک دن
میں نے کہا بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
غالبؔ غیر سائنسی سوچ رکھنے والے روایت پرست شاعر نہیں ہیں وہ سائنسی فکر کے حامل ترقی پسند شاعر ہیں ۔ اُن کے ہاں سائنسی افکار کی پراوانی ہے ۔
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں ؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
ذیل کے اشعار دیکھیں :
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
دوسرا دور “خمِ خانۂ شباب” (1821ء سے 1827ء)
مرزا غالبؔ نے دوسرے دور میں زبان کی صفائی اور شگفتگی پر خاص نظر رکھی اس دور میں آئینہ طبیعت کا زنگ صاف ہو گیا تھا ۔ انہوں نے اشعار کی ظاہری تزئین اور “آرائشِ گفتار” کا بےحد خیال رکھا کیونکہ انہیں اس بات کا درک ہو چکا تھا کہ کلام کی ظاہر ٹیپ ٹاپ کے ساتھ معانی و مطلب پر نظر رکھنا ناگزیر ہے کیونکہ اشعار صرف اظہار مطلب ہی کا وسیلہ نہیں بلکہ شعری جمال کا بھی ذریعہ ہیں ۔
تیسرا دور “بہار عجم” (1827ء سے 1847ء)
زمانی طور پر غالبؔ کے پہلے دور کی مدت بیس سال سے زیادہ ہے لیکن تیسرا دور بیس سال کا ہے عملی طور پر دیکھا جائے تو تیسرا دور طویل بنتا ہے کیونکہ غالبؔ چار پانچ سال کی عمر میں شعر کہنا نہیں شروع ہوگئے تھے ۔ غالبؔ نے پہلا فارسی شعر گیارہ برس کی عمر میں لکھا تھا اس طرح تیسرا دور زمانی طوالت کا حامل ہے ۔ 1827ء سے پہلے مرزا غالبؔ نے زیادہ تر اردا میں شعر کہے تھے ۔
چوتھا دور “نوائے ظفر” (1847ء سے 1857ء )
غالبؔ کی شاعری کا چوتھا دور اُن کے اوجِ کمال اور فکری پختگی سے عبارت ہے ۔ اس دور میں اس عہد کے استاد شعراء نے ان کے کلام اور لطف معانی کی تحسین کی اور زبان و بیان کے معاملے میں اُن کا شمار اساتذہ کی صف میں ہونے لگا ۔ دہلی میں مشاعرہ ایک ثقافتی قدر کی علامت تھا اور غالبؔ کی شمولیت منتظمین مشاعرہ کی عزت افزائی کی ہی ایک شکل تھی ۔
پانچواں دور “چراغِ سحری” (1857ء سے 1869ء )
مرزا غالبؔ کے دربارِ شاہی بڑے گہرے مراسم تھے اور بہادر شاہ ظفرؔ غالبؔ سے اصلاح بھی لیتے تھے ۔ ذوقؔ کی وفات کے بعد غالبؔ نے زیادہ تر توجہ اردو شاعری کی طرف مرکوز رکھی ۔ فارسی غزلیات بھی کہیں مگر خال خال ۔ 1857ء میں جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان میں سیاسی عمل تبدیل ہوگیا ۔
شاعری کا جذبات سے گہرا تعلق ہے اگر شعر جذبہ کی آنچ سے تپ کر نہ نکلے تو تخیل اور انداز بیاں کی ساھری کوئی کام نہیں دکھاتی ۔ شعر وہ ہے جسے لوگ جھوم کے گانا شروع کردیں ۔ ایک مصرع ترکے کے لیے شاعر کو سیروں خون خشک کرنا پڑتا ہے ۔ غالبؔ اپنے مخصوص فلسفیانہ آہنگ سے حیاتِ انسانی کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس عہد کا انسان جو کچھ دیکھتا ، محسوس کرتا اور سوچتا تھا ان سب کی لفظی تصویریں کلام غالبؔ سے عیاں ہوتی ہیں ۔
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
قید حیات و بند غم ، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
ہاں کھائیو مت پریب ہستی
ہر چند کہیں کہ “ہے” نہیں ہے
اُردو شاعری میں مرزا غالبؔ ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے مشکل اردو لکھی تو اتنی بعید از فہم کہ بڑے بڑے زبان دان بھی سٹپٹا اٹھے ۔ یہی عادات آسان تحریر کی طرف مائل ہوئے تو ایسی غزلیں لکھیں جو سہل ممتنع کا نادر نمونہ قرار پائیں ، مثلاً درج ذیل مطلعے ملاحظہ کریں :
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرزا غالبؔ نے اپنی مشکل پسندی کے بارے میں کہا تھا :
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
لفظوں کے استعمال کا غالبؔ کو غیر معمولی شعور تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے بڑے نقاد بھی تھے اور ہر شاعر کے اندرا نقاد ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر بڑا فنکار بڑا نقاد بھی ہوتا ہے ۔ وہ فن کے ذریعے اپنے فنی معیارات و اصول بیان کر رہا ہوتا ہے اور ان پر تنقیدی نظر بھی ڈالتا ہے ۔ قاری تو بہت بعد میں اس سے استنباط کرتا ہے ۔ اس لیے اندر کا نقاد جتنا اوسط درجے کا ہوگا شاعر اور فنکار بھی اتنا ہی کمزور ہوگا ۔ اچھے شاعر اور نقاد کے ضروری ہے کہ اسے زبان کی جملہ خصوصیات اور محاسن کا کماحقہ ادراک ہو ۔ غالبؔ کو ایک طرف تو فارسی آہنگ و فرہنگ پر عبور تھا اور دوسری طرف ان کا حاسہ انتقاد تھا اس لیے انہوں نے بساطِ شعر پھول ہی پھول نچھاور کیے ہیں وہ اپنی لفظیات کے آہنگ سے اپنے اشعار میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کردایتے ہیں ۔
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے فرقے میں برگزیدہ ہوں
محبت بڑا پاک اور مقدس جذبہ ہے یہ ہوس اور شاہد بازی پر موقوف نہیں ۔ ہر انسان میں یہ جذبہ موجود ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی شکلیں مختلف ہیں کسی کو خدا کے ساتھ، اولاد کو ماں باپ کے ساتھ ، والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ ، بہن کو بھائی سے ، بھائی کو بہن سے ، خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے یا ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ غرض یہ کہ انسان کو کسی بھی چیز کے ساتھ لگاؤ اور دلبستگی ہوسکتی ہے ۔ جب عشق و محبت میں اتنی وسعت و جامعیت موجود ہے تو پھر کیوں عشق کو محض ہوائے نسانی اور خواہش حیوانی تک محدود کیا جاتا ہے ۔ غالبؔ نے عشق و محبت کے خالص جذبات کی ترجمانی کی ہے ۔
پرسش طرز دلبری کیجیے کیا ؟ کہ بن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
ترے سروِ قامت سے ایک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
کیا آبروئے عشق ، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بےسبب آزاد دیکھ کر
یہ شعرطبیعات کے علم کا غماز ہے ۔ ایٹم میں الیکٹران کی گردشوں کے ساتھ حلقے کے اندر پروٹون اور نیوٹران کی کیفیتوں کے مطالعے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شعر کو پڑھیں ۔ عمل تنفس میں آکسیڈیشن سے توانائی کے ظاہر ہونے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خارج ہونے کا عمل اس شعر میں ملاحظہ ہو :
جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ سورج میں ہمہ وقت جوہری افتراق و امتزاج ہوتا رہتا ہے اور جوہری شدت کے با وصف سورج کی قوت کا اخراج پروٹان کی صورت میں ہوتا رہتا ہے یوں سورج کی تاب کار قوت بتدریج کم ہو رہی ہے ایک دور آئے گا کہ آفتاب عالم تاب بجھی ہوئی آگ کی شکل اختیار کر لے گا ۔ غالبؔ کے وجدانی علم نے سر جیمز جینز سے پہلے کیسی سائنسی حقیقت کا اظہار کیا تھا ؟
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہر گردوں ہے چراغ رہ گزار بادِ یاں
غالبؔ نے یہ شعر اٹھارہ انیس برس کی عمر میں کہا تھا اور رتبے کے لحاظ سے کہا جائے تو یہ بجا ہے کہ کوئی ور شاعر تو کیا مرزا غالبؔ بھی اس کے بعد ساری عمر اس پائے کا کوئی اور شعر نہیں کہہ سکتے ۔
القصہ مرزا اسد اللہ اردو کے عظیم شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری سے آج کا فرد بھی محظوظ و مستفیض ہوتا ہے اور ان کا کلام یقیناً آنے والے زمانوں میں لوگوں کے فکرو ذہن کو مہمیز کرتا رہے گا ۔