SUPERSTARWEBTECH

There is no elevator to success. You have to take the stairs. Take your first steps with SSWT!

Essay on Women Education (تعلیم نسواں) in Urdu for all students | Matric, Inter and BSc Urdu Essays

تعلیمِ نسواں پر مضمون – 1500 سے زائد الفاظ 

دنیا میں مردوں کی شرح خواندگی عورتوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ مرد زیادہ پڑھے لکھے ہیں ۔ جب کہ عورتیں کم تعلیم یافتہ ہیں ۔ حال آں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا پڑھا لکھا ہونا بھی بےحد ضروری ہے ۔ مرد ، عورت معاشرے کے دو اہم ستون ہیں ۔ دونوں کے بغیر زندگی کی عمارت ادھوری ہے ۔ مرد اور عورت مکمل اس وقت کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں ، جب وہ تعلیم یافتہ ہوں کیونکہ تعلیم انسان میں شعور بیدار کرتی ہے ۔ اسے اچھے برے میں تمیز سکھاتی ہی ۔ نیکی کو برائی سے جدا کرتی ہے ۔ خودی کو بلند کرتی ہے اور بندے کو خداشناسی عطا کرتی ہے ۔ لہذا تعلیم حاصل کرنا مرد اور عورت کے لئے یکساں ضروری ہے ۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا :

“علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔”

پاکستان میں خواتین کی تعداد تقریباً مردوں کے برابر ہے ۔ اس لئے انھیں تعلیم دینا بہت ضروری ہے کیونکہ آدھی آبادی اگر ناخواندہ ہوگی تو ملکی ترقی کسی طور ممکن نہیں ۔ پرانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تعلیم یافتہ خواتین اپنے گھر کے کام کاج نہیں کرتیں اور انھیں گھر کی دیکھ بھال کرنا نہیں آتا ۔ مگر اب گھر بار کو سلیقہ سے چلانے کی جتنی ذمہ داری تعلیم یافتہ عورتیں قبول کرتیں ہیں ، ان پڑھ عورتیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ تعلیم یافتہ عورت کے ہر کام میں ایک سلیقہ اور ایک نکھار ہوتا ہے ۔ اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات میں بھی پڑھی لکھی عورت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کے لئے بھی اچھی ماں ثابت ہوگی ۔

مردوں کی تعلیم ضروری تو ہے مگر

پڑھ جائے جو خاتون تو نسلیں سنوار دے

عورت چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی ، اس نے دنیا سے علم کے بل بوتے پر اپنا آپ منوا لیا ہے ۔ اب تو پاکستان میں بھی خواتین دفاتر میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں اور وہ گھر کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے نبھاتی ہیں ۔ ایک وقت تھا ، عورتوں کا دفاتر میں کام کرنا برا جانا جاتا تھا ۔ لیکن آج جب کہ دنیا اکیسیویں صدی میں داخل ہوچکی ہے ، انسانی ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ خلا کی وسعتوں اور سمندر کی گہرائیوں میں اتر چکا ہے ۔ ایسے میں لوگوں کے رجحان میں واضح تبدیلی آئی ہے ۔ اب پہلے جیسے حالات نہیں رہے ۔ عورتیں اب زندگی کے ہر شعبہ میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ نہ صرف دفاتر ، فیکٹریوں ، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ملازمت کرتی ہیں بل کہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں ۔

 

 

میڈیکل کے شعبہ میں بھی عورتوں نے بڑی ترقی ہے ۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔ سرجری کے میدان میں انھوں نے پاکستان کا نام روشمن کیا ہے ۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عورتوں کی شمولیت کو سراہا گیا ہے ۔ اب تو لڑکیاں ہوائی جہاز بھی اڑانے لگ گئی ہیں ۔

پاکستان کی وزیراعظم بھی ایک خاتون رہ چکی ہیں ۔ تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ملکہ نور جہان ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ خانہ داری میں بھی بےحد مہارت رکھتی تھیں ۔ نت نئے لباس تیار کروانے میں وہ بہت مہارت رکھتی تھیں ۔ کئی خوشبوئیں انھوں نے ایجاد کیں اور شعر و ادب میں بھی ان کے تخیل کی پرواز بہت بلند تھی ۔ اپنے خاوند جہانگیر بادشاہِ وقت کو بھی مفید مشوروں سے نوازتی تھیں ۔ ملکی امور میں ان کے مشوروں سے گراں قدر ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں ۔ اسی طرح چاند بی بی ، رضیہ سلطانہ ، برطانیہ کی وزیراعظم تھیچر ، ترکی کی وزیراعظم تانسولیز ، ملکہ الزابیتھ جو برطانیہ کی ہیڈ آف سٹیٹ ہیں ۔ یہ سب خواتین ہیں جو کہ اپنے نام تاریخ میں روشن حروف سے لکھوا چکی ہیں ۔

ایک تعلیم یافتہ خاتون اپنے ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا جانتی ہے ۔  وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے ۔ جب کہ ان پڑھ عورتیں مفید شہری بھی ثابت نہیں ہو سکتیں ۔ اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی عورت کی تعلیم کی اہمیت واضح کر دی ہے ۔ ایک حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

“علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے ۔”

ضروری نہیں کہ پڑھ لکھ کر عورت ڈاکٹر ، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے ۔ عورت کی پہلی ذمہ داری اس کا گھر ہے ۔ وہ پڑھی لکھی ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے ۔ حساب کتاب ، لین دین اور بچوں کی تعلیم و پرورش جیسے کام خوبصورتی سے سر انجام دے سکتی ہے ۔ جب ایک مرد تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ اپنا آپ سنوارتا ہے ، جب کہ ایک عورت جب تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ پورا خاندان سنوار دیتی ہے ۔ وہ اپنی تعلیم کو اپنے بچوں میں منتقل کر دیتی ہے ۔ پڑھی لکھی عورت اچھی ماں ثابت ہوتی ہے۔ ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے ۔ بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے ، وہ اپنی ماں ہی سے سیکھتا ہے ۔ سیانے کہتے ہیں کہ “چور کو نہ پکڑو ، اس کی ماں کو پوچھو ۔” اچھائی، برائی میں تمیز انسان اپنی ماں کی گود ہی سے سیکھتا ہے ۔ ماں عظمت کا مینار ہوتی ہے ۔ اللّٰہ نے اسے بڑی شان اور رتبہ عطا کیا ہے ۔ جنت ماں کے قدموں تلے ہے یعنی ماں کی خدمت کر کے انسان جنت کا حقدار کہلاتا ہے اور یہ سنت تب ہی ممکن ہے ، جب عورت علم سے آشنا ہو ، خود سے آشنا ہو ۔ اپنے رب سے آشنا ہو ۔ رب سے آشنائی علم کی بدولت حاصل ہوتی ہے ۔ مردوں کی نسبت عورتوں کا مذہب کی طرف زیادہ رجحان ہوتا ہے ۔ وہ زیادہ عبادت گزار ہوتی ہیں ۔ ایسے میں اگر ان کو مناسب مذہبی تعلیم دی جائے تو وہ ابتدا ہے سے اپنے بچوں میں مذہبی رجحان پیدا کر سکتی ہیں ۔ کیونکہ ماں بچے سے بہت زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ جو اپنے بچہ کو سکھاتی ہے ، وہ ساری عمر اسے یاد رہتا ہے ۔ لہذا ماں کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔

کسی بھی گھر کا نظام درست حالت میں چلانے کے لئے گھر کا بجٹ بنانا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔ ایک پڑھی لکھی عورت گھر کا حساب کتاب اچھے طریقے سے کرتی ہے ۔ وہ کفایت شعار ہوتی ہے ۔ وہ ایک ترتیب اور قرینے سے گھر کا نظام چلاتے ہوئے کچھ رقم پس انداز بھی کر لیتی ہے ، جو کہ مصیبت کے وقت کام آتی ہے ۔ لیکن ایک ان پڑھ عورت ایسا نہیں کر سکتی ۔ وہ حساب کتاب نہیں کر سکتی لہذا مہینے کے آخر میں میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہیں اور ان جھگڑوں کا بچوں کے معصوم ذہنوں پر منفی اثر ہوتا ہے ۔ ایسی ماؤں کے بچے مفید شہری نہیں بن سکتے ۔ ان پڑھ عورتیں ضیعف العتقاد ہوتی ہیں ۔ وہ مذہب سے دور ہوتی ہیں ۔ وہ توہم پرست ہوتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی توہم پرست بنا دیتی ہیں ۔ ایسی مائیں اپنے بچوں کو بڑوں کا ادب و احترام کرنا بھی نہیں سکھاتیں ۔ کیونکہ ان کی اپنی تربیت بھی نہیں ہوئی ہوتی ۔ وہ اپنے بچوں میں تعلیم کا شعور بیدار کرنے سے بھی قاصر ہوتی ہیں ۔

علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

اگلے وقتوں میں اگر عورت تعلیم یافتہ نہیں بھی ہوتی تھی تو بھی اس کو اچھا رشتہ مل جاتا تھا ۔ کیونکہ اس وقت خاندانی نظام مضبوط تھا ۔ آج خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے ۔ آج سب سے پہلے یہی بات پوچھی جاتی ہے کہ لڑکی کی تعلیم کتنی ہے ؟ اور جو بالکل ہی مادیت پرست لوگ ہیں ۔ وہ ملازمت پیشہ خواتین کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسے حالات میں عورت کی تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہو گیا ہے ۔

تعلیم انسان کو شعور کی دولت سے نوازتی ہے ۔ وہ انسان کا کردار سنوارتی ہے ۔ وہ انسان کو پاکیزہ بناتی ہے ۔ روح اگر پاکیزہ ہوگی تو انسان کا وجود بھی پاکیزہ ہوگا ۔ اسلام طہارت و پاکیزگی کا درس دیتا ہے ۔ روح اور جسم کی پاکیزگی سے صحت و تندرستی حاصل ہوتی ہے ۔ ایک تعلیم یافتہ عورت حفظانِ صحت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہوتی ہے ۔ وہ اپنے گھر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھتی ہے ۔ عورت چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو ، اگر وہ گھریلو امور سلیقہ مندی سے انجام نہیں دے سکتی تو وہ کبھی اپنے خاوند کی منظورِ نظر نہیں ہر سکتی ۔ ضرورت پڑنے پر ایک پڑھی لکھی خاتون مناسب ملازمت کر کے اپنے گھر کے اخراجات میں خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے ۔ ایک ان پڑھ عورت اگر سینا پرونا جانتی ہے تو وہ اس کو اگر پیشے کے اعتبار سے اپناتی ہے تو وہ درزن کہلاتی ہے ۔ جب کہ ایک پڑھی لکھی عورت اگر اسی کام میں مہارت رکھتے ہوئے کوئی بوتیک بناتی ہے تو وہ فیشن ڈیزائنر کہلاتی ہے ۔

ان ساری باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں کی تعلیم کے حصول کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ ان کے لئے زیادہ ہائی سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں اور انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عورتیں تعلیم حاصل کریں اور ملک کی مفید شہری بنیں ۔

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت

 

Author

Anam Afzal

Anam Afzal

Hi, I'm a Pakistani freelancer with a passion for helping businesses achieve their online goals through no-code solutions. I specialize in WordPress customization and ManyChat automation, and I'm always on the lookout for new ways to use technology to make businesses more efficient and successful. I'm also a big believer in the power of no-code tools to democratize technology and make it accessible to everyone. I'm passionate about sharing my knowledge and helping others learn how to use no-code tools to create their own websites, automate their workflows, and grow their businesses. If you're looking for a reliable and experienced no-code developer, I'm here to help. Please feel free to contact me to discuss your project requirements.
SHARE THIS POST